اکمال الدین بولایۃ امیرالمؤمنین علیہ السلام

اکمال الدین بولایۃ امیرالمؤمنین علیہ السلام

اکمال الدین بولایۃ امیرالمؤمنین علیہ السلام

Publish number :

3

Publication year :

2013

Publish location :

لاہور پاکستان

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

اکمال الدین بولایۃ امیرالمؤمنین علیہ السلام

پیش نظر کتاب "شہادت ثالثہ" کے موضوع کو پیش کرتی ہے لیکن واضح ہے کہ مؤلفِ کتاب خلطِ مبحث کا شکار ہے اور کبھی اذان و اقامت تو کبھی نماز کے تشہد میں "شہادت ثالثہ" کو واجب قرار دینے پر مُصِر ہے، واضح ہے کہ "شہادت ثالثہ" کا کوئی شیعہ اثنا عشری منکر نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہے جب کہ اتنے واضح مسئلے کو ہوا دے کر شیعوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنا خود کسی فتنے سے کم نہیں ہے۔

کتاب کمزور دلائل اور بھٹکے مطالب کا پلندہ ہے جس میں کبھی تقلید کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی علماء و فقہاء پر طنز کیا جاتا ہے کہ وہ فتویٰ دیتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں نعوذ باللہ۔

مؤلف کتاب شاید متروکہ اخباریت کا پیروکار اور مُقلد ہے جس کا فی زمانہ مزار بن چکا ہے ۔

مشہور ہے کہ شہادت ثالثہ صفویہ دور میں باقاعدہ طور پر شروع ہوئی۔ لیکن ایسے شواہد موجود ہیں کہ اس سے پہلے بھی بعض علاقوں میں پراکندہ طور کہی جاتی تھی۔ جیسا کہ ابن بطوطہ نے 8ویں صدی ہجری میں سعودی عرب کے شہر قطیف میں شیعہ اذان میں اشهد ان علیاً ولی‌ الله کا تذکرہ کیا ہے۔ اسی طرح شیخ صدوق کا شہادت ثالثہ کے جواز سے متعلق روایات کے بارے میں مخالفانہ مؤقف اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس زمانے میں ایسے گروہ موجود تھے جو اذان میں شہادت ثالثہ کہتے تھے۔

عبد المحسن سراوی کے مطابق شہادت ثالثہ امویوں کے دور سے چلی آرہی ہے اور اسے حاکمان وقت کی جانب سے منبروں اور گلدستۂ اذانوں سے حضرت علی پر سب و لعن کرنے کی باقاعدہ رسم کا عکس العمل قرار دیا جاتا ہے۔

کہا گیا ہے کہ عبد الله مراغی مصری نے اپنی کتاب السلافة فی أمر الخلافة میں روایت نقل کی ہے جس کے مطابق سلمان و ابو ذر رسول اللہ کے زمانے میں اذان میں شہادت ثالثہ کہتے تھے۔ البتہ بعض مصنفین اس کتاب میں تردید رکھتے ہیں۔

فقہی اختلاف

شیعہ فقہ کے مطابق اشهد ان علیاً ولی‌ الله تشریعی اعتبار سے اذان کا حصہ نہیں ہے۔ اسی وجہ سے شیعہ فقہا نے اسے اذان و اقامت کے اجزا میں ذکر نہیں کیا ہے۔ لیکن اذان و اقامت میں اس کے کہے جانے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ اس کے متعلق مختلف اقوال درج ذیل ہیں:

اذان و اقامت میں شہادت ثالثہ کہنا جائز نہیں ہے۔ شیخ صدوق شہادت ثالثہ کے جواز کی روایات کو غالیوں کی جعل کردہ سمجھتے ہیں۔ جبکہ شیخ طوسی کے مطابق یہ روایات شاذ ہیں اور جو کوئی اذان و اقامت میں کہتا ہے وہ گناہ کار ہے۔

اذان و اقامت میں جز کی نیت کے بغیر شہادت ثالثہ کہنا مستحب یا جائز ہے؛ عبدالحلیم غزّی نے کتاب "الشہادة الثالثہ المقدسہ" میں سو سے زیادہ فقہا کے فتاوا جمع کئے ہیں جن میں سے اکثر اذان و اقامت میں کی نیت کے بغیر کہنے کو مستحب سمجھتے ہیں۔ اس گروہ کی دلیل وہ روایات ہیں جو کسی شرط کے بغیر توحید و نبوت کے بعد ولایت علی کی گواہی دینے کو بیان کرتی ہیں۔ نیز وہ فقہا شیخ صدوق اور شیخ طوسی کے مؤقف کو جز سمجھنے والوں کے بارے میں سمجھتے ہیں۔

شہادت ثالثہ کو اگر شیعہ مذہب کا شعار سمجھا جائے تو مستحب ہی نہیں بلکہ واجب ہے۔ آیت اللہ حکیم، شہادت ثالثہ کو اذان و اقامت میں جز کی نیت کے بغیر کہنے کو مستحب سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق موجودہ زمانے میں شہادت ثالثہ مذہب شیعہ کا شعار (پہچان) بن چکا ہے اس لحاظ سے مستحب بلکہ ممکن ہے واجب ہو۔

اذان و اقامت میں شہادت ثالثہ کا جز ہونا: بعض فقہا مدعی‌ ہیں کہ شہادت ثالثہ اذان و اقامت کا جزء ہے۔ علماء کا یہ گروہ ان روایات سے استناد کرتے ہیں جنہیں شیخ صدوق و شیخ طوسی مردود سمجھتے ہیں۔ ان میں سے بعض ان روایات سے استناد کرتے ہیں جنہیں مراغی مصری نے سلمان و ابوذر کے اذان و اقامت میں نقل کیا ہے۔ جبکہ بعض محققین کتاب کے مصنف کے مجہول الحال، کتابخانوں میں اس کتاب کی عدم موجودگی، ایسی احادیث کا شیعہ کتب میں موجود نہ ہونا جیسے دلائل سے استدلال کرتے ہوئے خود اس کتاب کے وجود میں شک و تردید کرتے ہیں۔

بعض شیعہ فقہا شہادت ثالثہ کو اذان و اقامت میں جزئیت کے قصد کے بغیر مستحب سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس کی حزئیت کو بھی بعید نہیں سمجھتے ہیں، صاحب جواہر نے کہا:

اگر اصحاب و فقہا کا شہادت ثالثہ کے جز نہ ہونے پر اتفاق اور تسالم نہ پایا جاتا تو ہمارے پاس شہادت ثالثہ کے اذان و اقامت کے جز ہونے کی گنجائش موجود تھی۔

نماز کے تشہد اور مسلمان ہونے میں اس کی شرطیت

یوں تو فقہی استدلالی کی کتابوں اور مراجع عظام کی توضیحوں میں نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ بیان نہیں ہوئی ہے لیکن بعض شیعہ مراجع تقلید کے استفتائات میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔ اکثر موجود مراجع تقلید نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ کہنے کو جائز نہیں کہتے ہیں۔ لیکن بعض مصنفین مطلق روایات جیسے: جب توحید و رسالت کو گواہی دو تو ولایت علی گواہی بھی دو، کی بنا ہر نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ کو جائز سمجھتے ہیں۔ اسی طرح بعض شیعہ فقہا بعض فقہا کی طرف نسبت دیتے ہیں کہ وہ اس شہادت کو جائز سمجھتے تھے۔

مسلمانوں کے نزدیک مسلمان ہونے کیلئے شہادتین کہنا کافی ہے نیز شیعہ فقہا بھی مسلمان ہونے کیلئے شہادت ثالثہ کہنے کو لازم نہیں سمجھتے ہیں۔