عدالت صحابہ کا نظریہ

عدالت صحابہ کا نظریہ

عدالت صحابہ کا نظریہ

Publish location :

قم ایران

Number of volumes :

1

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

عدالت صحابہ کا نظریہ

 زیر نظر کتاب ’’عدالت صحابہ کا نظریہ‘‘ عربی کتاب ’’نظریة عدالة الصحابه‘‘ کا ترجمہ ہے، اس کتاب میں سنی نظریہ اور شیعہ نظریہ دونوں کو صحابہ کے بارے میں  بیان کیا گیا ہے، اس کتاب کے اندر آپ کو بعض ایسے سوالات کے جوابات مل جائیں گئے جو قابل حل نہیں تھے، مثلاً:

آخر رسول کی اتنی تاکیدوں، علیؑ کے فضائل وغیرہ کے باوجود حضرت علیؑ کو خلافت سے کیوں محروم کیاگیا؟

۱۸ ذی الحجہ  کو غدیر خم میں حضرت علیؑ کی خلافت کا اعلان کیا گیا اور ۲۸، صفر دو  ماہ دس دن کے بعد رسول خدا(ص) کا انتقال ہوجا تا ہے صرف اتنی قلیل مدت میں رسول(ص) کا تاکیدی بیان لوگ بھول گئے.......؟ یہ کیسے ممکن ہے!

کیا صرف دو تین آدمی اتنے با اثر تھے کہ سارے مہاجرین و انصار پر ان کی دھاک تھی اور حضرت علی و بنی ہاشم  کا کوئی اثر ہی نہیں تھا؟

یہ اور اس قسم کے دیگر سوالات کے جوابات آپ کو یہ کتاب دے گی!

مؤلف کتاب نے کئی سال زحمت کے بعد اس کتاب کو تحریر فرمایا ہے آپ کی کچھ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، اس کتاب کے مؤلف جناب استاد احمد حسین یعقوب ہیں، آپ اردن کے رہنے والے ہیں، سن ۱۹۳۹ء میں جرش میں ایک مشہور خاندان کی مشہور شاخ عُتیبہ  میں پیدا ہوئے اور عمان یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہ کر رشتۂ حقوق میں فوق لیسانس کی ڈگری حاصل کی. ویسے تو آپ کا پیشہ وکالت ہے لیکن مدتوں سے اسلام کے تاریخی و اعتقادی مسائل کی تحقیق میں لگے ہوئے ہیں اور اب تک یہ کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں:(۱) النظام السیاسی فی الاسلام (۲) نظریة عدالة الصحابه (۳) مرتکزات الفکر السیاسی۔

بہرحال اگر ایسے متفکرین پیدا ہوتے رہے جو تعصب کی عینک لگا کر نہ دیکھیں تو وہ خود بھی صراط مستقیم تک جلد پہنچ جائیں گے اور دوسروں کو بھی پہنچائیں گے۔

شیعہ عقیدے کے مطابق رسول اللہ(ص) کے صحابہ دوسرے افراد کی مانند ہیں صرف صحابی ہونے کی بنا پر انکی عدالت ثابت نہیں ہوتی ہے ، صحابہ کی ایک لاکھ چودہ ہزار کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے عادی طور پر محال ہے کہ صرف رسول اللہ کی ملاقات اور ایمان کی بنا پر وہ عادل قرار پائیں کیونکہ اتنی بڑی تعداد مختلف رجحانات اور میلانوں کے ہوتے ہوئے تھوڑی سی مدت میں تقوا کے اس درجے تک پہنچ جائیں اور وہ گناہان کبیرہ انجام نہ دیں یا گناہان صغیرہ پر اصرار نہ کریں در حالانکہ ان میں کچھ تو اپنی خواہش و ارادے کے مطابق مسلمان ہوئے اور کچھ تو خوف و ہراس کی بنا پر اور کچھ تالیف قلوب کی بنا پر اسلام لائے۔

شیعہ عدالت صحابہ کے نظریے کو قبول نہیں کرتے اور اس سلسلے میں پیغمبر اکرمؐ کے اصحاب کو دوسرے مسلمانوں کی طرح سمجھتے ہوئے صرف پیغمبر اکرمؐ کی مصاحبت کو کسی کی عدالت کے لئے کافی نہیں سمجھتے ہیں۔[شہید ثانی، الرعایۃ فی علم الدرایۃ، ۱۴۰۸ق، ص۳۴۳] ان کے مطابق یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ پیغمبر اسلامؐ کے تمام صحابہ تقوا کے اس درجے پر فائز ہو گئے ہوں جو ان کی عدالت، گناہ کبیرہ کے ترک اور گناہ صغیرہ کے ارتکاب پر اصرار نہ کرنے کا باعث بنتا ہو، حالانکہ تاریخ اسلام گواہ ہے کہ بعض صحابہ خوف، ناچارری اور تألیف قلوب کے عنوان سے پیغمبراکرمؐ پر ایمان لائے تھے۔[امین، اعیان الشیعۃ، ۱۴۱۹ق/۱۹۹۸م، ج۱، ص۱۶۲۔] اس بنا پر شیعوں کے مطابق عدالت صحابہ کا نظریہ کچھ سیاسی مفادات کی خاطر اپنایا گیا تھا جن میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے:

خلفائے ثلاثہ کی خلافت کی مشروعیت۔صحابہ پر اعتراض اور تنقید کو روکنے کے لئے ان کو خطا اور لغزش سے پاک سمجھنا۔معاویۃ بن ابی‌ سفیان کی سلطنت کو مشروعیت بخشنا اور ان کے اعمال کی توجیہ۔[یعقوب، نظریۃ عدالۃ الصحابہ، ۱۴۹ق، ص۱۰۵-۱۰۸۔]اسی طرح صحابہ کے بعض ناشائستہ اعمال کی توجیہ کے لئے ان کی طرف اجتہاد کا نظریہ پیش کرنا، قرآن و سنت کو سمجھنے میں فہم صحابہ کو اولویت دینا، صحابہ کے قول و فعل کو حجت سمجھنا، صحابہ سے نقل شدہ احادیث کو جَرح و تعدیل کے قواعد پر اتارے بغیر قبول کرنا اور مسلمانوں میں اختلاف ایجاد کرنا اس نظریے کے آثار اور نتائج میں سے بیان کیا جاتا ہے۔[فخعلی، «گفتمان عدالت صحابہ»۔]