پھر وہ شیعہ ہوگیا

پھر وہ شیعہ ہوگیا

پھر وہ شیعہ ہوگیا

Publication year :

2005

Publish location :

لکھنؤ ہندوستان

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

پھر وہ شیعہ ہوگیا

خداوندِ عالم نے دنیا میں جب انسانوں کو آباد کیا تو شروع سے ہی ان کو سیدھی راہ چلانے کا انتظام بھی فراہم کیا، اس طرح کے برابر ان کی ہدایت اور ارشاد کے لیے انبیاء اور مرسلین کو بھیجتا، شریعت مقرر کرتا، اپنے احکام و اوامر و نواہی سے پیغمبر کو مطلع کرتا اور وحی و الہام کے ذریعہ سے ضروری امور کی تعلیم فرماتا رہا جب انبیاء مرسلین دنیا سے اٹھ جاتے تو ان کے اوصیاء وخلفاء کو مقرر کر کے اس شریعت کی حفاظت کا انتظام بھی کرتا رہا، تاکہ اس عالم میں امن قائم رہے۔ ہر شخص صفات حسنہ سے متصف ہو ۔ مکارم الاخلاق کی پابندی کرے، تہذیب و شائستگی کے زیور سے آراستہ ہو وہ خود بھی آرام سے رہے اور دوسروں کو بھی عافیت سے رہنے دے اور دنیا کو مزرعة الآخره اور دوسری دنیا کی زراعت گاہ سمجھ کر اپنے اور دوسروں کی بہترین زندگی کی کوشش کرے۔ مگر افسوں حضرت سید الاولین والاخرین خاتم الانبیاء والمسلمین رحمۃ للعالمین پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفیٰﷺکی رحلت کے بعد مسلمانوں میں شدید اختلافات پیدا ہو گئے اور آج تک ہوتے جاتے ہیں۔ ان میں متعدد فرقے ہو گئے اور عقائد واعمال سب میں ایک نے دوسرے سے علیحدگی اختیار کی۔ خدا کی جسمانیت و مکانیت کے متعلق اختلاف، اس کی جہت کے متعلق اختلاف اس کی صفات کے متعلق اختلاف اس کے اصول کے متعلق اختلاف اس کی قدرت سے متعلق اختلافات اس کے حلول کے متعلق اختلاقات اس کے اتحاد کے متعلق اختلافات اس کے کلام کے متعلق اختلاف اس کی مشیت کے متعلق اختلاف اس کے صدق کے متعلق اختلاف اس کے قدیم ہونے کے متعلق اختلاف اس کے باقی رہنے کے متعلق اختلاف بداء کے متعلق اختلاف اس کے جبروتفویض کے متعلق اختلاف خیر وشر سے متعلق اختلاف قضا و قدر سے تعلق اختلاف، تولّا وتراء کے متعلق اختلاف تقیہ کے متعلق اختلاف اسی طرح نبوت انبیاء و مرسلین کے متعلق بے حد و بے حساب اختلاف، حقیقت نبوت میں اختلاف عصمت انبیاء میں اختلاف اوصاف انبیاء میں اختلاف اور خاص کر رسول خداﷺ کے متعلق اور زیادہ اختلافات؛ مثلاً حضرتﷺ کے آباء و اجداد کافر تھے یا مون آنخضرتﷺ قبل نبوت مؤمن تھے یا کافر معصوم تھے یا نہیں سہو ونسیان میں مبتلا تھے یا نہیں بعد نبوت بتوں کی تعریف کی یا نہیں اپنی ازواج کے امور میں حضرت جامۂ انسانیت سے علیٰحدہ ہو جاتے تھے یا نہیں وعدہ وفا کرتے تھے یا نہیں امّتِ اسلام کے خیر خواہ تھے یا بد خواہ، ہزیان بکتے تھے یا نہیں؟

اسی طرح حضرتﷺ کے برخلافت کے متعلق اختلافات کہ خلیفہ مقرر کرنا خدا کا کام ہے یا اس کا اعلان کرنا رسول کا فرض ہے یا مسلمانوں ہی کو خدا نے اختیار دیا ہے کہ جس کو چاہیں خلیفہ بنائیں؟ خلافت رسول کی جانشینی ہے یا صرف مسلمانوں کی سرداری، خلیفہ کے اوصاف کیا ہوں؟ خلیفۂ رسول عالم ہو یا جاہل عادل ہو یا ظالم معصوم ہو یا گنہگار امت کا خیر خواہ ہو یا بدخواه پارساہو با بدکردار دنیا پرست ہو یا دین کا چاہنے والا سفاکی و خونریزی پسند کرے یا امن و آشتی، نفس پرست ہو یا نفس کش، بادشاہت کرنا چاہیے یا دین کی خدمت، سلطنت بڑھائے یا مذہب کی طرف لوگوں کو بلائے، تلوار کے زور سے اسلام کی اشاعت کرے یا ادلّہ و براہین کی قوت سے لوگوں کے دل اس طرف مائل کرے اپنے آپ کو رسول خداﷺ کا قائم مقام سمجھے یا سلاطین عالم کا ہمسر، اپنی زندگی کی غرض دوسروں پر تسلط اور سطوت و جبروت قرار دے یا خلق عظیم کی پیروی، مذہب کو ضروری سمجھے یا کھیل تماشے کو، آخرت پر یقین رکھے یا اسے ڈھکوسلا جانے، مختصر یہ کہ وہ اسلام کا نمانده و یا جبابره کا نمونہ، رسول خداﷺ کا جانشین دکھائی دے یا سرکش ظالموں کی فوٹو کاپی ہو، اسکا وجود ہر زمانہ کے لیے ضروری ہے یا نہیں، اس کے بغیر دنیا کا قیام ناممکن ہے یا محال وغیرہ وغیرہ ہزاروں اختلافات ؟!؟

اسی طرح معاد کے تعلق بکثرت اختلافات، یہ سب اعتقادات سے متعلق نزاعوں کی طرف اشارہ تھا، عبادات اور اعمال کے متعلق تو اور زیادہ اختلافات ہیں، کہ عبادت کی غرض کیا ہے، نیت کیا ہو، لباس کیا ہو جگہ کیسی ہو طہارت کیسی ہو نجاست میں کون کون سی چیزیں سمجھی جائیں، نجس اشیاء کو کس طرح طاہر کیا جائے۔ استنجاء پانی سے کیا جائے یا ڈھیلے سے کھڑے ہو کر پیشاب کیا جائے یا بیٹھ کر اس کے کیا شرائط و آداب ہوں، وضو کس طرح کیا جائے پاؤں پر کیا جائے یا اسے دھویا جائے، پھر استبراء، طہارتِ حوض،مسحِ سر، تیمم کے متعلق اختلاف، ان سب اختلافات کے بعد نفسِ نماز کے متعلق اختلافات کہ اذان کس طرح کہی جائے، اس میں کون سی فصل رہے اور کون سی نہیں " اشهد ان علی ولی الله و وصی رسول الله و خليفته بلا فصل" کہا جائے یا نہیں "حي على خير العمل “ کا ذکر کیا جائے یا نہیں "الصلوة خیر من النوم" کہنا بدعت ہے یا نہیں ۔ پھر وقت نماز کے متعلق اختلافات کہ کسی نماز کو کس وقت ادا کرنا چاہیے۔ دونمازوں کا اکھٹے ادا کرنا جائز ہے یا نہیں، نماز میں ہر سورہ کے قبل بسم الله کہنا چاہیے یا نہیں ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنی چاہیے یا کھول کر تکبیر کہتے وقت ہاتھوں کو بلند کرنا چاہیئے یا نہیں دوسری رکعت میں قنوت پڑھنے کی تاکید ہے یا نہیں سجدہ گاہ پر سجدہ کرنا ضروری ہے یا نہیں سجدہ کس طرح کرنا چاہیئے پہلے ہاتھ اس کے بعد گھٹتے رکھیں یا اس کے الٹا کریں، نماز میں کتنی سورتوں کا پڑھنا افضل ہے نماز ختم کرنے پر تکبیر کہنی چاہے یا نہیں، نماز کے بعد تعقیبات کیا ہوں۔ نماز تراویح بدعت ہے یا نہیں اور اس کے پڑھنے سے خدا اور رسولﷺ خوش ہوں گے یا ناراض۔ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی تسبیح پڑھنی چاہیے یا نہیں ہر نماز کے بعد سجدۂ شکر ادا کرنا بہتر ہے یا نہیں نماز وتر ایک رکعت ہے یا دو، میت پر دفن کرتے وقت تلقین پڑھنی چاہیے یا نہیں۔ نماز عیدین کے اختلاقات اور روزے کے متعلق اختلافات کہ کسی وقت سے شروع کیا جائے کس وقت نیت کی جانے کس وقت افطار کیا جائے، کن کاموں سے روزہ باطل ہو جاتا ہے، کون سی باتیں روزے میں مکروہ ہیں، سفر میں روزہ رکھنے کا حکم ہے یا نہیں، عاشورہ کے دن روزہ رکھنا کیسا ہے۔ ۲۹ کا چاند ہو جائے مگر لوگوں کو خبر نہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے ۳۰ رمضان دن کوخیر ہو کہ کل چاند ہوگیا تھا تو کیا حکم ہے۔ چاند ہونے کا علم کس طرح ہوتو شریعت میں قابل عمل ہوگا، اور کس صورت میں؟ پھر  زکوٰۃ، خمسو جہاد کے اختلافات، قربانی کے متعلق اختلافات پھر نکاح کے اختلاقات، محرماتِ ابدیہ  کی تفصیل، متعہ کی تحقیق پھر طلاق کے اختلافات، رضاعت کے اختلافات، میراث کے اختلافات، سود کے اختلافات، حدود کے اختلافات شراب کی قسموں میں اختلافات کہ کون سی حرام ہیں کون سی نہیں، غرض سینکڑوں اختلافات ہیں۔

چونکہ خدا اور رسولﷺ نے حکم دیا ہے کہ جن سے جس قدر ممکن ہو دوسروں کو سمجھانے اچھی باتیں بتانے سیدھی راہ دکھانے اور خدا اور رسولﷺ تک پہنچنے کا راستہ واضح کرنے کا فرض ادا کرتا رہے۔ اس وجہ سے فاضل مصنف  نے بھی اپنا فرض سمجھا کہ خدائے رحیم و کریم کی تائید پر بھروسہ اور اس کی اعانت و حمایت کے سوال کی کوشش کرے کہ حضرات اہل سنت اور فرقہ شیعہ کے کل ہی اختلافات ایک جگہ جمع ہوجائیں تو پھر قرآن مجید کی آیات اور ان کی تفسیر اور حدیث و تاريخ کی تصدیق سے تحقیق کی جائے کہ کسی کا مسلک حکم خدا اور رسولﷺ کے مطابق ہے کسی کا اس کے خلاف ہے۔

چونکہ خدا نے حکم دیا ہے کہ:ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ؛اپنے پروردگار کے مذہب کی طرف لوگوں کو مناسب عنوان اور دلچسپ بحث و پند کے ذریعہ سے بلا‘‘ (سوره ۱۶: النحل آیت ۱۲۵) اس سبب سے ہر داعی الیٰ الحق  کے لیے ضروری ہے کہ اپنے کلام کا ایسا عنوان اختیار کرے جس کی طرف لوگ متوجہ ہوں اس کو دل لگا کر سنیں یا پڑھیں، اور اس پر غور و فکر کرنے کا موقع پائیں تا کہ اس گفتگو کا اصلی مقصود حاصل ہو سکے۔ اس وجہ سے یہ کتاب بھی دلچسپ گفتگو اور خوشگوار مباحثے کی صورت میں لکھی گئی ہے تا کہ ان تحقیقات کو ہر شخص خوشی سے دیکھے اور نظر انصاف سے مذہبِ حق اختیار کرے کیونکہ دنیا چند روزہ ہے۔ یہاں کی بڑی سے بڑی سلطنت زبردست حکومت اعلیٰ درجہ کی نعمت انتہا درجہ کی راحت و عافیت سب فانی ہے اور ہر شخص کو مرنے کے بعد بروز قیامت اپنے مذہب کے مطابق جزاء یا سزا پانی ہے۔لہٰذا اس کتاب کو صد در صد اپنے مطالعے کا حصہ ضرور بالضرور قرار دیں۔