Drawer trigger

احسن العقائد(باب حادی عشر)

احسن العقائد(باب حادی عشر)

احسن العقائد(باب حادی عشر)

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

احسن العقائد(باب حادی عشر)

ابومنصور جمال‌الدین، حسن بن یوسف بن مطہر حلّی (۶۴۸-۷۲۶ ہجری) علامہ حلّی کے لقب سے مشہور ہیں۔ اور آپ آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ علما میں سے ہیں۔ آپ کے علمی آثار اور مناظرات کی وجہ سے سلطان محمد خدا بندہ شیعہ ہوئے اور ایران میں شیعہ مذہب پھیل گیا۔ علامہ حلی نے بہت سارے علوم؛ جیسے فقہ، اصول، عقاید، فلسفہ، منطق، دعا وغیرہ میں کتابیں تالیف کیا ہے جن میں تبصرۃ المتعلمین فی احکام الدین، کشف المراد، نہج الحق و کشف الصدق، باب حادی عشر، خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال، الجوہر النضید شامل ہیں۔ آپ وہ پہلی ہستی ہیں جنہیں علم اور فضیلت کے باعث آیت اللہ کا لقب دیا گیا۔

الباب الحادي عَشَر، منہاج الصّالح فی مختصر المصباح کا گیارہواں باب اور حوزہ علمیہ میں پڑھائی جانے والی کلامی کتابوں میں سے ایک ہے جسے علامہ حلی نے شیعہ اصول عقائد کے اثبات میں لکھا ہے۔

علامہ حلی نے وزیر محمد بن محمد قوہدی کی خواہش پر کتاب منہاج الصالح فی مختصر المصباح لکھا جس میں شیخ طوسی (متوفی ۴۶۰ھ) کی دعاوں اور عبادات پر مشتمل کتاب مصباح المُتَہجِّد کا خلاصہ کیا ہے۔ آپ نے اس خلاصے کو دس باب میں ذکر کیا ہے اور اس کے بعد چونکہ دعا اور عبادت کی شناخت معبود اور پکارے جانے والے کی شناخت پر موقوف ہے اور عبادت کا صحیح ہونا عقیدہ اور ایمان کی درستگی پر موقوف ہے اس لئے ایک اور باب گیارہویں باب (الباب الحادی عشر) کے نام سے اصول دین کی شناخت کے بارے میں اضافہ کیا۔

علامہ حلّی نے اس گیارہویں باب میں وہ اصول دین جن پر مسلمانوں کا اجماع ہے کو یوں بیان کیا ہے:

خدا کی معرفت، صفات ثبوتیہ اور سلبیہ اور وہ چیزیں جو خدا کے بارے میں صحیح ہیں اور جو چیزیں خدا کے بارے میں ممتنع ہیں اور نبوت، امامت اور معاد۔ آپ نے اس باب کو سات فصلوں میں تقسیم کیا ہے:

پہلی فصل واجب الوجود کے اثبات میں ہے؛

دوسری فصل صفات ثبوتیہ کے بارے میں ہے اور صفات ثبوتیہ، قدرت اور اختیار، علم، حیات، ارادہ اور کراہت، ادراک، قدیم اور ازلی، باقی اورابدی ہونا، تکلم، صدق؛

تیسری فصل صفات سلبیہ کے بارے میں ہے اور صفات سلبیہ؛ مرکب نہ ہونا، جسم، عرض اور جوہر نہیں ہونا اور لذت اور درد نہیں ہونا، کسی چیز سے نہیں ملنا، حادثات کا منبع نہ ہونا، ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھا جانا، شریک نہ ہونا اور حالات و معانی سے دور ہونا؛

چوتھی فصل عدل کے بارے میں ہے اور انسان کےلیے اختیار اور اللہ کے لیے قبیح کو محال ہونا اور ان پر لطف ثابت کرتے ہیں؛

پانچویں فصل نبوت کے بارے میں ہے جس میں «نبی» کے لفظ کی تعریف کرنے کے بعد پیغمبر اسلام کی نبوت انکی عصمت کے وجود اور لوگوں میں سے افضل ہونا اور اجداد کی پستیوں اور ماؤوں کی ناپاکی اور اخلاقی برائیوں اور جسمی عیوب سے پاک ہونے کو ثابت کرتے ہیں؛

چھٹی فصل امامت (پیغمبر کے نائب کے عنوان سے ایک شخص کو دینی اور دنیوی امور میں عام ریاست ہونا) کے بارے میں ہے اور اسے عقلی طور پر واجب سمجھتے ہیں اور کہتا ہے کہ امام کو معصوم اور اللہ کی طرف سے منصوص ہونا چاہیے اور لوگوں میں سب سے افضل ہونا چاہیے۔ پھر عقلی اور نقلی طریقوں سے پیغمبر کے بعد علی بن ابی طالب کی بلافصل امامت کے بارے میں بیان کرتا ہے؛

ساتویں فصل قیامت کے بارے میں ہے اور اسے عقلی طریقے سے ثابت کرتا ہے پھر اس بارے میں بعض آیتوں کو ذکر کر کے ان کی تشریح کرتا ہے؛ اس فصل میں ثواب اور عقاب، توبہ، امر بالمعروف اور نہی از منکر کو بیان کیا ہے۔

باب حادی عشر کی منفرد خصوصیت یعنی اختصار اور جامعیت کی وجہ سے قدیم الایام سے ہی علم کلام اور شیعہ اعتقادات کے شیدائیوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ اور ہمیشہ باقی دس ابواب سے الگ اس کی تدوین اور اشاعت ہوئی ہے۔ شیعہ علما نے اس پر بہت سارے شروحات اور تعلیقے لکھے ہیں اور حوزہ علمیہ میں اس کو نصابی کتاب کے عنوان سے پڑھایا گیا ہے۔ آقا بزرگ طہرانی نے الذریعَۃ میں بیس سے زیادہ شروحات کا ذکر کیا ہے۔ ان شروحات میں سے سب سے زیادہ مشہور فاضل مقداد (متوفی ۸۲۶ھ) کی لکھی ہوئی شرح بنام النافع یوم الحشر فی شرح باب حادی عشر اور اہل علم کی مورد نظر رہی ہے اور دینی مدارس میں پڑھائی گئی ہے اور کئی بار زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے۔

صحیح عقائد تک دست رسی انسان کی اہم ضروریات میں سے ہے، عقائد پر مختلف علماء کرام نے کتابیں لکھی ہیں جن میں ایک علامہ حلی علیہ الرحمة کی کتاب باب حادی عشرہے جس کی شرح علامہ فاضل مقدادؒ نے فرمائی، نہایت عمدہ ہونے کی وجہ سے عوام وخواص میں مقبول قرارپائی،اس قسم کی اہمیت کی حامل کتاب کی ہمارے معاشرے میں بھی ضرورت تھی اسی ضرورت کے پیش نظرعلامہ سید محمد قاسم زیدی صاحب نے اس کتاب کا احسن العقائدکے نام سے اردو میں ترجمہ کیا جوقارئین کے استفادے کے لئے پیش خدمت ہے۔