اصول عقائد

اصول عقائد

اصول عقائد

Publisher :

نور مطاف

Publish location :

قم ایران

Publish number :

1

Publication year :

1442

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

اصول عقائد

تاریخ بشریت میں عقائد خصوصا آغاز فریش اور قیامت کا مسئلہ انبیاء کی الٰہی دعوت کی بنیاد ر ہا ہے۔ ان الٰہی  و آسمانی انسانوں کے کلام کا آغاز اور ان کے پیغام کا انجام انسانیت کو خدا تعالی کی طرف دعوت دینا، لوگوں کی عالم آخرت کی طرف بازگشت اور قیامت کی طرف توجہ دلانا تھا۔

تاریخ کے طولانی سفر میں، زمانوں کے گذرنے میں، اور شہروں کے پھیلاؤ میں جب بھی کبھی انسانی سماج نے اس اہم اور بنیادی اصول سے انحراف کیا یا اس کو کم اہمیت دی تو فتنے، بلائیں  اور مشکلات اس کے دامن گیر ہوگئیں۔

ہمیں اس تلخ حقیقت پر باور کرنا چاہیئے کہ پیغمبران الٰہی کے سعادت بخش پیام اور مقدس راہ سے دشمنی اور مخالفت ہمیشہ سے رہی ہے جبکہ نور و نار میں، تقویٰ اور فسق و فجور میں، ایمان و کفر میں جنگ و ستیز بھی مسلسل رہی ہے، اس سلسلے میں دین کے خلاف براہ راست جنگ گزشتہ صدیوں اور قرون وسطیٰ میں خدائی دعویٰ سے لے کر خدا کے انکار تک جاری رہی ہے جبکہ عصر ضحاضر میں دین کی حقیقت پر بے جا اور ناروا تاویلات و توجیہات کے انبار لگادیئے گئے اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ادیان الٰہی کے ساتھ ساتھ انسانی مکاتب فکر یا دساتیر کو بھی مثلاً بت پرستی یا ہندوازم وغیرہ کو بھی حق اور صراط مستقیم سمجھا جانے لگا۔

آج دنیا میں منظّم و منسجم استعماری ادارے اور تنظیمیں جن کے پاس ارتباطات اور نشر و اشاعت کے انتہائی جدید وسائل موجود ہیں نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ ادارے معاشروں کے اعتقادات اور اقدار خصوصاً نوجوان نسل کی فکری بنیادوں پر شب خون مارتے ہوئے یلغار کررہے ہیں۔

اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ چارۂ کار یہ ہے کہ اس وقت موجود امکانات و وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے الٰہی اقدار ومعارف کی ترویج و تشہیر کی ذمہ داری پوری کی جائے۔ اس عظیم ذمہ داری کا بار سنگین، دلسوز ربّانی علماء اورعلمی وتحقیقی مراکز پر ہے۔ البتہ خوش قسمتی سے ان اداروں کی ہر روز کی نشوونما، ترقی اور ان کی پُرثمر کاوشوں کے نتائج  کے ہم شاہد ہیں۔

کتاب«اصول عقائد» جیسی اہم کتاب پر ایک نظر بتاتی ہے کہ اسکی تالیف و تدوین اسی مقصد کی تکمیل کے لئے ہوئی ہے، یہ کتاب بنیادی دینی ابحاث کے لئے مفید اور نوجوان نسل کے بعض سوالات اور ضروریات کو پورا کرتی ہے۔

اگرچہ یہ کتاب تعریف و تو صیف کی محتاج نہیں ہے تاہم کہا جا سکتا ہےکہ اس کتاب کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ اس کے مؤلف حضرت آیت الله مکارم شیرازی ہیں جو مرجع تقلید ہیں اور یہ کہ گزشتہ کئی برسوں سے اعتقادی اور کلامی موضوعات پر تحقیق، تعلیم اور تدریس کے امور انجام دے رہے ہیں۔ اس کتاب کے گہرے مطالب اسکی ساده و رواں اور ادبی تعبیرات کے رکاوٹ نہیں بنتے بلکہ قارئین کے لئے زیا دہ جاذبیت وکشش کا باعث ہیں۔

پروردگار کی وحدانیت پر موجود «برہان نظم» کو بیان کرتے ہوئے جدید علمی مطالب کے ساتھ قرآنی آیات کو مرتبط کیا گیا ہے جو پڑھنے والے کی معلومات میں اضافے کا باعث ہے۔

کتاب کے بعض مندرجات:

خدا کی تلاش، کائنات سے واقفیت کا شوق، ہماری روز مرّہ زندگی میں خدا کے وجود کی نشانیاں، ہمارے جسم کی مملکت کا مرکز، ایک چھوٹے سے پرندے میں عجائبات کی دنیا، حشرات اور پھولوں کی باہمی دوستی، خدا کی معرفت کے اطمینان بخش راستے، عدل کیا ہے، مساوات اور عدالت ے درمیان فرق، مسئلۂ جبر و اختیار، امر بین الامرین(یا وسطی مکتب) کیا ہے؟، ہمیں رہبران الٰہی کی احتیاج، اجتماعی قانون گزاری کے لیے انبیاء کے وجود کی ضرورت، امامت کیا ہے، امام کے وجود کا فلسفہ، آسمانی ادیان کی حٖفاظت، امام کے لیے ضروری شرائط و خصوصیات، امام کا انتخاب کس کی ذمہ داری، کیا امت کو پیغمبر(ص) کا جانشین مقرر کرنے کا حق حاصل ہے؟، کیا پیغمبر(ص) نے اپنا جانشین مقرر نہیں فرمایا؟، اجماع و شوریٰ، قرآن و امامت،ایک اہم سوال؛ موت اختتام ہے یا آغاز، معاد کے بغیر زندگی بے معنیٰ ہے، انسانی تربیت میں عقیدۂ معاد کا اہم کردار، فطرت کی تجلیوں میں معاد، قیامت عدل کے ترازو میں، موت کے بعد کی زندگی کا اس جہان میں مشاہدہ۔ جسمانی اور روحانی معاد، جنت و جہنم اور اعمال کا مجسم ہونا۔

کتاب سے اقتباس:

مورخین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ سرزمین حجاز اُس زمانہ میں پسماندہ ترین خطہ تصور کیا جاتا تھا اور عصر جاہلیت کے لوگوں کو نیم وحشی یا وحشی اقوام کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔

عقیدہ کے اعتبار سے وہ لوگ بت پرستی میں غرق تھے اور تمام معاشرے پر پتھر یا لکڑی کے بنائے ہوئے بتوں کا منحوس سایہ پھیلا ہوا تھا مشہور ہے کہ ’’کھجور‘‘ کے بت بنا کر اسکے سامنے دوزانو بیٹھ جاتے انکو سجدہ کرتے اور قحط سالی کے موقعہ پر نہیں کھا جاتے تھے!

لڑکیوں سے نفرت کی شدت کا یہ عالم تھا کہ انہیں زندہ درگور کردیتے تھے جبکہ فرشتوں کو ’’خدا کی پٹیاں‘‘ تصور کرتے تھے۔ اور خدا کو تو ایک عام انسان کے رتبہ پر لے آتے تھے

’’توحید پرستی اور وحدانیت‘‘ پر سخت حیران ہوتے تھے اور جب حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان کو دعوت توحید دی تو وہ نہایت تعجب سے کہنے لگے:کیا اس نے بہت سے معبودوں کی جگہ صرف ایک معجبو بنالیا؟ یہ تو یقیناً بڑی عجیب چیز ہے۔(سورۂ ص، آیت:۵)

جو شخص بھی انکی خرافات، جھوٹے افسانوں اور ان کے نظریات کے خلاف بات کرتا اسے ’’دیوانہ‘‘ کہہ کر پکارنے لگتے۔

قبائلی نظام اپنی پوری شدت کیساتھ معاشرے پر چھایا ہوا تھا اور قبائلی اختلافات اس قدر شدید تھے کہ ہمیشہ جنگ کی آگ روشن رہتی تھی اور زمین کو ایک دوسرے کے خون سے نگین رکھتے تھے قتل و خازتگری ان کا روز کا معمول تھا اور اس پر فخر کرتے تھے۔