فلسفۂ غیبت مہدی(عج)(تلخیص:کمال الدین وتمام النعمہ)
فلسفۂ غیبت مہدی(عج)(تلخیص:کمال الدین وتمام النعمہ)
Editor :
Interpreter :
Publisher :
Publication year :
2007
Publish location :
لاہور پاکستان
(0 پسندیدگی)
(0 پسندیدگی)
فلسفۂ غیبت مہدی(عج)(تلخیص:کمال الدین وتمام النعمہ)
یہ کتاب اپنے موضوع میں نہایت رَسَا اور اپنے باب میں ممتاز ہے اس موضوع پر کتاب ھٰذا سے زیادہ کامل، شیریں اور پُرکشش کتاب نہیں ملتی، متقدمین ومتاخرین میں سے کسی کی بھی کتاب اس کی مانند نہیں ہے، اس میں امام غائبؑ کی شخصیت، وجوہِ غیبت اور جو کچھ آپ سے متعلق ہے کے بارے میں تجزیہ کیا گیا ہے اور سب کچھ معصومینؑ سے واردہ روایات سے ثابت کیا گیا ہے۔ کمال الدین و تمام النعمۃ یا اکمال الدین و اتمام النعمۃ، عربی زبان میں تالیف کی گئی محمد بن علی بن بابویہ قمی، شیخ صدوق (متوفی 381 ھ) کی کتاب ہے۔ جو ظہور امام زمانہ(عج) اور ان کی غیبت کے متعلق لکھی گئی ہے۔ شیخ صدوق نے اس میں بہت سے انبیاء کی غیبت کی مثالیں ذکر کی ہیں نیز امامت حضرت مہدی (ع)، ان کی ولادت ،ان کے ظہور سے متعلق پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ (ع) کی روایات، امام مہدی کی خدمت میں پہنچنے والے افراد اور شرائط ظہور کو مکمل طور پر بیان کیا ہے۔ شیخ صدوق خود اس کتاب کی تالیف کا سبب "غیبت" بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:مشہد کے سفر میں زیارت علی بن موسی الرضا (ع) کرنے کے بعد میں نیشابور گیا۔ وہاں مجھ سے ملنے کیلئے آنے والے شیعوں نے میرے سامنے امام زمانہ کے متعلق شبہات اور اعتراضات ذکر کئے تو میں نے بہت زیادہ کوشش کے ساتھ جوابات دیئے اور پھر قم آ گیا۔ یہاں پر جب شیخ نجم الدین ابو سعید محمد بن حسن بن محمد بن احمد بن علی بن صلت قمی مجھ سے ملنے آئے تو انہوں نے مجھ سے اس موضوع کے متعلق ایک کتاب کی تالیف کی درخواست کی۔ میں نے انہیں مثبت جواب دیا یہاں تک کہ ایک رات میں نے امام زمان (ع) کو خواب میں دیکھا اور انہوں نے مجھ سے کہا: تم کیوں غیبت کے متعلق کتاب نہیں لکھتے تا کہ خداوند اس کے وسیلہ سے تمہاری حاجتوں کو پورا کرے۔ میں نے عرض کی: اے فرزند رسول میں اس موضوع کے متعلق پہلے چند کتابیں لکھی ہیں۔ امام نے فرمایا: یہ جو کتاب لکھو گے اس میں انبیاء کی غیبت کے بارے میں اشارہ کرو۔ پس اس کے بعد میں بیدار ہوا اور میں نے اس کتاب کی تالیف کا ارادہ کیا۔ اس کتاب کی یہ اہمیت ہے کہ اس میں غیبت صغری کے بزرگ شیعہ عالم دین ابو جعفر محمد بن عبد الرحمن ابن قبہ رازی (متوفی قبل از 319 ھ) کے اقوال مذکور ہیں۔ کیونکہ اس شیعہ عالم دین کے متعلق ہماری معلومات کا ذخیرہ وہ نکات تھے جنہیں ابن ندیم اور نجاشی نے ذکر کیا تھا۔ دیگر علماء رجال نے ان کے متعلق کوئی چیز اضافہ نہیں کی ہے۔ نجاشی کے مطابق ابن قبہ پہلے معتزلی مکتب سے تھا اور پھر بعد میں اس نے مذہب شیعہ اختیار کیا۔ اس کتاب کی مزید خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں بعض ناحیہ مقدسہ کی جانب سے صادرہ توقیعات ذکر ہوئی ہیں۔ شیخ صدوق نے اس کتاب کے کچھ مطالب نواب اربعہ سے بلا واسطہ خود ان سے اور بعض دفعہ قدیمی کتب سے نقل کئے ہیں۔ کتاب کے سبب اور روش تالیف کے پیش نظر اسے کلامی عنوان کے ذیل میں قرار دیا جا سکتا ہے لیکن تاریخ پیامبران، تاریخ جاہلیت، تاریخ پیامبر اسلام و تاریخ تشیع جیسے اکثر تاریخی مطالب کو دیکھتے ہوئے اسے تاریخی کتاب بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب امام زمان (ع) کے متعلق قدیمی ترین اور معتبر ترین شیعہ مسلک کی بنیادی کتاب ہے۔ شیخ صدوق نے اس کتاب میں امام زمانہ کی غیبت کے متعلق بہت سے شیعہ اعتقادی مسائل کو بیان کیا ہے اور منکرین اور مخالفین کے اعتراضات کے جوابات دیئے ہیں۔ اس کتاب میں مجموعی طور پر 63 ابواب میں 88 راویوں سے 621 روایات ذکر ہوئی ہیں۔ اس کتاب کے چند مورد بحث ابواب درج ذیل ہیں: حجت خدا کی خلقت دیگر انسانوں سے پہلے ہوئی ہے۔ فقط خداوند عالم خلیفہ کے انتخاب کا حق رکھتا ہے۔ اثبات غیبت اور اس کی حکمت۔ ابن قبہ رازی کے جوابات۔ حضرت نوح، صالح، ابراہیم اور یوسف (ع) کی غیبت۔ غیبت کے متعلق اہل بیت (ع) کی روایات۔ امام زمان (عج) کو دیکھنے والے افراد۔ آنحضرت کے خطوط۔ علامات ظہور۔ انتظار کا ثواب اور دیگر بہت سے موضوعات۔