اعتقادات امامیه فی ترجمة الرّسالة اللّیلیّه علامہ مجلسی

اعتقادات امامیه فی ترجمة الرّسالة اللّیلیّه علامہ مجلسی

اعتقادات امامیه فی ترجمة الرّسالة اللّیلیّه علامہ مجلسی

Publication year :

2006

Publish location :

سرگودھا پاکستان

Publish number :

2

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

اعتقادات امامیه فی ترجمة الرّسالة اللّیلیّه علامہ مجلسی

رسالۂ لیلیہ، مجدّد ملتِ جعفریہ آیة اللہ المجلسی رحمة اللہ علیہ کی تصنیف ہے جو عقائد صحیحۂ اثناء عشریہ پر مشتمل ہے جسکا ترجمہ مولانا محمد حسین صاحب نے فرمایا ہےاور اس پر مفید حواشی بھی تحریر کیے ہیں، ہر مؤمن کو چاہیئے کہ وہ اس سے استفادہ کرے اور اسے اپنے عقائد کی بنیاد قرار دے کیونکہ یہی مذہب شیعہ کے صحیح عقائد ہیں جو اقوال و آثار ائمہ سے مستنبط ہیں۔

تمام فرق اسلامیہ میں سے شیعہ ہی ایک ایسا فرقہ ہے جس کے جملہ عقائد و اعمال کتاب وسنت سے ماخوذ ہیں، شیعوں کے علاوہ اگر کوئی اور اس بات کا دعوی کرتا ہے تو وہ صرف دعوی ہی دعوی ہے اس کے لیے کوئی عقلی یا نقلی دلیل فراہم نہیں کی جا سکے گی۔ یہ شیعہ ہی ہیں جن کے لیے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: یاعلی انت و شیعتك هم الفائزون يوم القيامة. ”اے علی ! تو اور تیرے شیعہ ہی قیامت کے دن کامیاب و کامگار ہوں گے‘‘۔

غالباً اسی وجہ سے جناب شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی جیسے شیعوں کے دشمن کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ’’شیعہ اولیٰ ما هستیم‘‘ یعنی حقیقت میں، شیعہ ہم اہل سنت ہی ہیں لیکن جب روافض اور زیدیہ نے اپنے آپ کو شیعہ کہلوانا شروع کردیا تو ہم نے(اتہام سے بچنے کیلئے) اہل سنت کہلوانا مناسب سمجھا۔ ہمارے قارئین یہیں سے یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کوفے کے جن افراد نے اپنے آپ کو شیعہ ظاہر کر کے حضرت امام حسین علیہ السلام کو خطوط لکھے تھے وہ دراصل کون تھے؟ کیونکہ بقول محدث دہلوی ’’شیعہ اولیٰ ما هستیم‘‘۔

شیعوں کے علاوہ جو دیگر فرقے ہیں ان میں توحید سے لیکر قیامت تک اورنماز سے لیکر جہاد تک بعض عجیب وغریب خلاف عقل و نقل باتیں ملیں گی مثلاً دیوبندی حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے علاوہ باقی سب مشرک ہیں لیکن وہ خود امکان کذبِ باری تعالی کے قائل ہیں چنانچہ مولانا محمد اسماعیل[شہید] دہلوی کے رسالے ’’یکروزی ص ۲۵اپرصاف موجود ہے کہ خدا کا جھوٹ بولنا ممکن ہے‘‘۔

مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی نے اپنے فتاوی میں جو ’’فتاویٰ رشیدیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے صفحہ۴۵طبع دہلی پرصاف لکھتے ہیں کہ: ’’امکان کذب باین معنی کہ جو کچھ حق تعالىٰ نے حکم فرمایا ہے، اس کے خلاف پروہ قادر ہے مثلاً فرعون سے وعدهٔ ادخال نار کا کیا ہے مگر ادخال جنتِ فرعون پر بھی قادر ہے‘‘۔ حالانکہ ارشاد ربّانی ہے:إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ۔[آل عمران:۹۔ الرعد: ۳۱۔ الزمر: ۲۰]۔

زیر نظر کتاب لیلیہ حضرت علامہ حافظ محمد باقر المجلسی رحمۃ اللہ علیہ کی تألیف ہے،مجلسی؛ علامہ ان معنوں میں نہیں ہیں جن میں یہ لفظ آج کل ہر کس وناکس کے لیے استعمال ہورہا ہے بلکہ بقول مرحوم مرزا تنکابنی: ’’علامہ مصطلح است دریں کہ جامع علم منقول و معقول باشد‘‘۔

علامہ مجلسی سینکڑوں کتابوں کے مؤلف ومصنف ہیں۔ حدیث کی مشہور کتاب "بحار الانوار" کے آپ ہی جامع ہیں۔ علامہ نے اپنی اس کتاب میں ہر قسم کی صحیح، ضعيف، حسن۔۔ وغیرہ احادیث کو درج کردیا ہے، اس لیے اس فن کا ماہر ہی براہ راست اس سے استفادہ کرسکتا ہے:ؔ نہ ہر کہ سر بتراشد قلندری داند۔

معلوم ہوتا ہے کہ علامہ مجلسی کے زمانے میں بھی شیعوں پر طرح طرح سے الزام تراشی کی جاتی تھی جس طرح آج کل، اس کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ کے زمانے میں صوفی حضرات اسلامی عقائد سے ہٹتے جارہے تھے اور انھوں نے بعض من گھڑت اوراد و وظائف کو اصل دین سمجھا لیا تھا کچھ اسی طرح جیسا کہ آج کل ہمارے زمانے میں بعض نام نہاد صوفیا کررہے ہیں، مزارات پر بعض ایسے افعال شنیعہ ہورہے ہیں جن کا شریعت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ مزارات کہ جنہیں دیکھ کرآخرت یاد آنی چاہیئے تھی یہ عجیب اتفاق ہے کہ وہاں جاکرآخرت بھول جاتی ہے۔

 سرکار علامہ مجلسی نے در حقیقت کوزے میں دریا بند کردیا ہے۔ حضرت علامہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے۔ یہ وہی سرکار علامہ مجلسی علیہ الرحمہ ہیں جن کے مذہبی و ملّی خدمات جلیلہ کے پیش نظر شاہ عبد العزيز دہلوی نے ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ میں ان کے متعلق لکھا ہے کہ "اگر بنامند دین شیعه را بدین مجلسی ہر آئینہ درمحل خواهد بود‘‘ (اگر مذہب شیعہ کو مجلسی کا مذہب کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔)۔