امالی (مجالس) شیخ صدوق

امالی (مجالس) شیخ صدوق

امالی (مجالس) شیخ صدوق

(2 پسندیدگی)

QRCode

(2 پسندیدگی)

امالی (مجالس) شیخ صدوق

زیر نظر کتاب مجالس صدوق، جناب ابوجعفر محمد بن علی بن حسین بن بابویہ قمی علیہ الرحمہ کی شہرۂ آفاق کتاب ''امالی'' کا اردو ترجمہ ہے، یہ کتاب 97 مجالس کا مجموعہ ہے جن میں احادیث و واقعات اور روایات و پند و نصائح کا ایک بڑا اور نادر و نایاب ذخیرہ موجود ہے، جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاہر ہے یہ جناب صدوقؒ کی ذاتی قلمی تصنیف نہیں ہے بلکہ ان کے اس فن خطابت کا حاصل ہے جس کا اظہار انھوں نے مختلف مقامات اور مختلف اوقات و مواقع پر کیا اور جسے بعد میں جمع کرکے کتابی شکل دے دی گئی۔

الأمالی عربی زبان میں شیخ صدوق (تقریبا 306-381 ھ) کی تالیف ہے جو چوتھی صدی ہجری میں شیعہ امامیہ کے متکلم، محدث، فقیہ اور حدیث شناس کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ یہ کتاب حقیقت میں شیخ صدوق کے ان دروس پر مشتمل ہے جو انہوں نے ایران کے شہر مشہد کے سفر کے دوران منگل اور جمعہ کے دن اپنے شاگردوں کو دیئے اور انہوں نے ان اسے تحریر کیا۔ یہ دروس 18 رجب سنہ 367 ہجری سے لے کر 11 شعبان سنہ 368 ہجری میں دیئے گئے۔

تیسری صدی ہجری کے آواخر میں محافل ادبی میں فنون کے رائج ہونے کے بعد اسلامی دانشمندوں کے درمیان فن امالی نویسی متعارف ہوا۔ امالی املا کی جمع ہے۔ اسکی صورت کچھ اس طرح سے تھی کہ استاد یا دانشمند کسی محفل میں تقریر کرتا تو حاضرین اس کی تقریر کو لکھ لیتے تا کہ وہ ایک کتاب کی صورت میں جمع  ہو جائے۔ تالیف کی اس روش کو امالی کہتے تھے۔ شیعہ کی اہم ترین امالیاں درج ذیل ہیں:(1) امالی ناصر کبیر اطروش۔ (2) الامالی شیخ صدوق۔ (3) الامالی شیخ مفید۔ (4) الامالی سید مرتضی۔ (5) امالی طوسی۔

شیخ صدوق کی اس کتاب میں 97 مجلسیں ہیں جن کی تدوین میں 13 مہینے لگے۔ یہ مجلسیں (22، 23، 24 و 26) کے علاوہ ہر جمعہ اور منگل کے روز برقرار ہوتیں۔ ان کے شروع کی تاریخ 18 رجب 367 ھ تھی اور ان کے اختتام کی تاریخ 18 شعبان 368 ھ تھی۔ ان مجالس کا سلسلہ ایران کے شہر مشہد کے سفر کے دوران قائم ہوا۔ طوس کے راستے میں تدوین کتاب میں کچھ مدت کا فاصلہ آیا۔

29ویں مجلس ماہ محرم کی آٹھ تاریخ سے مطابق تھی اور یہ اس سال کے محرم کا دوسرا جمعہ تھا۔ لہذا اس مناسبت سے شیخ صدوق نے سید الشہداء کے مقتل کا بیان شروع کیا اور اسے 30ویں اور 31ویں مجلس میں مکمل کیا۔ 26ویں مجلس غدیر کے روز تھی لہذا اس میں اس دن کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے شیخ صدوق نقل احادیث میں زمان و مکان کی خصوصیات کی طرف متوجہ تھے۔

نیز ماہ رجب میں اس ماہ کے فضائل، ماہ مبارک رمضان میں اس کے فضائل، روزے کے ثواب کے متعلق احادیث بیان کی ہیں۔ جب نیشاپور پہنچے تو یہاں زیارت امام رضا علیہ السلام کی فضیلت کے متعلق حدیثیں بیان کیں۔

یہ کتاب نبوی(ص) اور اہل بیت(ع) کی مختلف موضوعات میں احادیث کا ایک مجموعہ ہے مثلا اسراء و معراج، ادعیہ اور موعظہ حسنہ، فضائل اور مناقب اہل بیت(ع) کی احادیث شامل ہیں نیز اس میں تاریخی و اخلاقی و عقائدی و ... موضوعات بھی شامل ہیں۔

اس کتاب کا ایک بڑا حصہ احادیث پر مشتمل ہے جناب صدوق(رح) جہاں دلیل و مناظرہ کے میدان کے شہہ سوار ہیں وہیں حدیث بیان کرنے کےسلسلے میں بھی امتیازی حیثیت رکھتے ہیں اور بذات خود ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں جناب صدوق(رح) کو اگر راہنمائے فقہاء کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ مذہب امامیہ کی چار بڑی اور بنیادی کتب احادیث میں سے ایک ( من لا یحضرہ الفقیہ) جناب صدوق(رح) ہی کی تالیف ہے جناب صدوق(رح) کی تصانیف کا درست شمار ممکن نہیں کیونکہ امتداد زمانہ نے جہاں دیگر علمی شہہ پاروں کو ضائع کردیا وہاں جناب صدوق(رح)  کی تصانیف بھی زمانے کی دست برد سے محفوظ نہیں رہ سکیں اور اب صرف چند دستیاب شدہ کتب کے سوا شیخ کی تصانیف کا تذکرہ کتابوں اور فہرستوں میں ہی ملتا ہے۔

ابن ندیم وراق اپنی کتاب ” الفہرست“ میں جناب صدوق(رح) کی تین سو تصانیف شمار کرنے کے بعد ۴۰ سے زائد کے نام بیان کیے ہیں۔ شیخ طوسی(رح) اپنی فہرست میں جناب صدوق(رح) کی تین سو تصانیف شمار کرنے کے بعد تقریبا ۴۰ کے نام بیان کرتے ہیں۔ علامہ حلی(رح) نےبھی جناب صدوق(رح) کی تین سو تصانیف شمار کی ہیں۔ شہید ثالث قاضی نور اللہ شوستری(رح) نے رجال نجاشی کے حوالے سے اپنی کتاب ”مجالس المومنین“ میں شیخ صدوق(ح) کی تصانیف کی تعداد تین سو کے قریب بیان کرتے ہیں اور ۲۰۳ کتب و رسائل کے نام درج کرتے ہیں۔

اسکے علاوہ جناب صدوق(رح) کے حصہ میں ایک ایسی سعادت آئی ہے جو شاذ ہی کسی کو نصیب ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ جناب صدوق(رح) کے والد گرامی نے امام زمانہ علیہ السلام کے نائب خاص جناب ابوالقاسم حسن ابن روح سے ملاقات کے دوران چند مسائل دریافت کیے اور پھر قم واپس جاکر علی بن جعفر بن اسود(رح) کی معرفت جناب ابوالقاسم روح(رح) کو ایک خط تحریر کیا جس میں انہوں نے جناب ابن روح (رح) سے گذارش کی کہ میری درخواست جناب امام زمانہ علیہ السلام تک پہنچائیں کہ آنحضرت(ع) میرے حق میں اولاد نرینہ کے لیے دعا فرمائیں۔ اس خط کے جواب میں امام زمانہ علیہ السلام نے تحریر فرمایا کہ میں نے تمہارے حق میں دعا کردی ہے عنقریب تمہارے ہاں دو فرزند متولد ہوںگے جوکہ بہترین ہوں گے لہذا اسی سال جناب صدوق(رح) کی ولادت ہوئی۔

جناب صدوق(رح) کا سن ولادت جناب حسین بن روح(رح) کی نیابت کے پہلے سال کے بعد کا ہے چنانچہ اشارہ یہ ملتا ہے کہ شیخ کی ولادت ۳۰۶ھ کی ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت صغری میں شیخ نے تقریبا ۲۰ سال گذارے اس کے بعد کا زمانہ غیبت کبری کا ہے جناب صدوق(رح) کا سن وفات ۳۸۱ھ بتایا جاتا ہے۔ تنگی قرطاس راقم الحروف کو اجازت نہیں دیتی کہ اس سے زیادہ آپ کے حالات زندگی بیان کیے جائیں۔ کتاب ہذا کا مطالعہ کرنے والے پر عیاں ہوگا کہ اس کتاب میں شامل چند ایک روایات و احادیث، تعلیمات و عقائد مذہب اہل بیت(ع) سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ میرے نزدیک ایسی ضعیف روایات کا کسی کتاب میں شامل ہوجانا اس لیے اہمیت کا حامل نہیں ہے کہ شیعیت کے ابتدائی ادوار نہایت کھٹن مراحل سے گذرے ہیں جب حالات نامساعد، راستہ دشوار، سہولیات ناپیدا اور اردگرد اغیار کی ایسی بھیڑ لگی ہو جس کاتقاضہ تقیہ ہوتو ایسی چند ایک مجہول روایات کی دراندازی خاص اہمیت کی حامل نہیں ہوا کرتی۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ اور شیعیت کی نمو پر نظر رکھنے والے اہل قلم گزشتہ چودہ صدیوں سے قائم ناصبی اثرات کی شدت سے آگاہ ہیں۔ اس کے علاوہ عمداً اور سہواً غلطی کے احتمال سے صرف ذوات معصومین(ع) ہی مبرا ہوسکتی ہیں تمام انسان کا معیار اس سے مطابقت نہیں رکھتا دوم یہ کہ راقم الحروف کو ان مجہول روایات کی در اندازی میں بھی ایک مثبت پہلو نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ ہماری کتب تحریف سے پاک ہیں کیونکہ اگر امامیہ تحریف کے قائل ہوتے تو سب سے پہلے ایسی ہی روایات اپنی کتب سے خارج کرتے۔