کتاب الشافی ترجمہ فروع کافی ج۳
کتاب الشافی ترجمہ فروع کافی ج۳
Author :
Interpreter :
Publisher :
Publication year :
2004
Publish location :
کراچی پاکستان
Number of volumes :
4
(0 پسندیدگی)
(0 پسندیدگی)
کتاب الشافی ترجمہ فروع کافی ج۳
فرقہ شیعہ کی کتب احادیث میں چار کتابیں زیادہ مشہور و مہتمم بالشان ہیں؛ کافی، من لایحضرہ الفقیہ، تہذیب الاحکام اور استبصار، ان چاروں میں کافی کو ایک خاص مرتبپ حاصل ہے کیا بلحاظ تقدم زمانی اور بحیثیت اصول و فروع دونوں کا مجموعہ ہونے کے، کتاب کافی کی چار جلدوں میں علامہ یعقوب کلینی علیہ الرحمہ نے سترہ ہزار احادیث جمع کی ہیں اس عالم ربانی نے بیس سال کی طویل مدت میں ان احادیث کو فراہم کیا ہے ان کے جمع کرنے میں کیا کیا صعوبتیں اس مقدس ہستی کو اٹھانا پڑیں اور کیسے کیسے سخت مواقع کا سامنا ہوا اس کے بارے میں جمع کرنے والے کا دل ہی جانتا ہوگا، کیونکہ ایک جگہ تو یہ احادیث تھیں نہیں کہ وہاں سے باآسانی لے لی جاتیں بلکہ شہر شہر قریہ قریہ اور گھر گھر جانا پڑا جس کسی سے معلوم ہوا کہ فلاں عالم کے پاس حدیثیں ہیں جس طرح بن پڑا وہیں پہنچے اور نقل کرلیں اس زمانے کی طرح اُس زمانے میں سفر آسان بھی نہ تھا غالباً سفر کا زیادہ حصہ پاپیادہ ہی طئے ہوا ہوگا اور نہ معلوم کیا کیا دشواریاں پیش آئی ہوں گی، اس صعوبتِ سفر کے علاوہ سلاطین جور کی حکومت اور دشمناںِ اہلبیتؑ کی ہر جگہ کثرت اور شیعوں سے وہ سخت عداوت کہ خون کے پیاسے، احادیث ائمہؑ کے صفحۂ ہستی سے مٹانے پر کمربستہ،ایک ایک شیعہ پر کڑی نظر ہر طرف حکومت کے جاسوس چھوٹے ہوئے ان حالات کے تحت سترہ ہزار حدیثیں جمع کرلینا بڑا مشکل کام تھا، قرینہ کہتا ہے کہ یہ کام بہ صیغۂ راز انجام دیا ہوگا، یہ تھے مذہب حقہ کے جانباز سپاہی اور ملت بیضا کے نڈر خدمت گزار اگر ایسے نہ ہوتے تو علوم آل محمدؐ کا کسی کو پتہ ہی نہ چلتا۔
یہ مقدس کتاب اس اعتبار سے کافی کہی جاتی ہے کہ اس میں اصول و فروع کے متعلق اس کثرت سے احادیث ہیں کہ وہ شیعوں کی ہدایت کے لیے کافی و وافی ہیں، ہمارا یہ دعوا کسی وقت نہیں ہوا کہ کافی میں جتنی احادیث ہیں وہ سب صحیح ہیں بلکہ اس میں ہر قسم کی احادیث ہیں، صحیح، مؤثق، مرفوع، مرسل، ضعیف، مجہول اور حسن وغیرہ ان کو درج کرنے کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسی احادیث کو جو معیار پر پوری صحیح ثابت نہیں ہوتیں لکھنے کی کیا ضرورت تھی ان سے تو بہت سے شبہات و اعتراضات پیدا ہوتے ہیں جن سے اساس مذہب میں تزلزل پیدا ہوتا ہے، اس کے لیے اس بات کا وضح ہوجانا نہایت ضروری ہے کہ ہر وقت اور ہر حالت کا تقاضہ جداگانہ ہوتا ہے معترض کو وہ زمانہ اپنے ذہن میں لیتے ہوئے اعتراض کرنا چاہیئے، وہ زمانہ شیعوں کے لیے اضطراب انگیز، صبر آزما اور نہایت پُر آشوب تھا احادیثِ معصومینؑ کا بیان کرنے والا گردن زدنی قرار پاتا تھا، تعصب کی آگ ہر طرف بھڑکی ہوئی تھی، شیعوں کی نہ جان محفوظ تھی نہ آبرو، عرصۂ حیات ان پر تنگ تھا ایسی صورت میں جب کسی کے گھر میں آگ لگی ہو اور صاحب خانہ یہ چاہتا ہے کہ جو کچھ نکل سکے بھڑکتے شعلوں میں سے نکال پھینکے اس کو اس وقت یہ خیال نہیں ہوتا کہ کون سی چیز نکالنے کے قابل ہے اور کون سی نہیں، کون قیمتی اثاچہ ہے اور کون کم قیمت، کون ضرورت کی ہے کون نہیں، اس وقت تو نہ کسی ترتیب کا لحاظ ہوتا ہے نہ قدر وقیمت کا جو چیز ہاتھ آجاتی ہے نکال پھینکتا جاتا ہے یہ وقت اس فیصلے کا نہیں ہوتا کہ کون چیز کہاں رکھی جائے یا کس شئے کے بچانے کی ضرورت ہے اور کس کی نہیں، جب اطمینان نصیب ہوجائے اس وقت یہ باتیں سوچی جاتی ہیں۔
یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ ہمارے مسلمان بھائی جن کتابوں کو صحاح ستّہ کہتے ہیں جن کو تدوین کرنے والوں نے حکومتوں کے زیر سایہ امن و سکون کے عالم میں جمع کیا ہے تو حقیقتاً ان تمام کتابوں کے اندر تمام احادیث صحیح نہیں ہیں اگر وہ سب کی سب صحیح ہوتیں تو رنگیلا رسول جیسی ناپاک کتاب ان سے مدد لے کر نہ لکھی جاتی، ان صحاح میں بہت سی حدیثیں ایسے راویوں سے منقول ہیں جو نہ صرف کاذب نہیں بلکہ وہ کذّاب کتب رجال میں دکھائے گئے ہیں جبکہ ان احادیث کے مضامین درایتاً صحیح بھی نہیں، حدیث کی صحت کا معیار یہ ہے کہ وہ اول تو قرآن کے خلاف نہ ہو دوسرے اس سے فرعی یا اصولی مسئلہ پر زد نہ پڑتی ہو تیسرے وہ درایتاً بھی صحیح ہو اور اس کے راوی معتبر و مؤثق ہوں، مؤمن ہوں ورنہ ان پر عمل کرنا ذریعۂ نجات نہیں ہوسکتا، اگر ہر کس و ناکس کی بیان کردہ حدیث قابل وثوق ہوتی تو رجال کی کتابیں لکھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔
فرقۂ شیعہ نے اپنی کتابوں کے متعلق کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ من اولہٖ الیٰ آخرہٖ ان کی تمام احادیث صحیھ اور متوتر ہی ہیں، کیونکہ کسی کتاب میں کسی حدیث کا پایا جانا اس کا ثبوت نہیں کہ وہ صحیح ہے تاوقتیکہ وہ معیار پر صحیح نہ اترے۔
اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے چند امور کو اپنے ذہن میں رکھیئے
۱۔ اس میں ایسی احادیث بھی ہیں جن کو کلینی علیہ الرحمہ نے ایسے لوگوں سے لیا ہے جن کو راویوں کا سلسلہ یاد نہ تھا صرف ایک یا دو راویوں کے نام یاد تھے ایسی حدیث ضعیف یا مجہول ہے جب تک دوسری احادیث سے تائید نہ ہو اس پر عمل نہیں کرنا چاہیئے۔
۲۔ ایسی احادیث بھی ہیں جن کا سلسلہ امام تک نہیں پہنچا بلکہ اصحاب امام پر ختم ہوا ہے۔
۳۔ ایسی احادیث بھی ہیں جن کے راوی مجہول الحال ہیں۔ ۴۔ ایسی احادیث بھی ہیں جن کی تائید و توثیق دوسری احادیث سے نہیں ہوتی۔
۵۔ ایسی احادیث بھی ہیں جو بلحاظ مضمون ایک مقام پر تو مؤثق ہیں اور دوسرے مقم پر ضعیف، یہ فرق بلحاظ روایت ہے نہ بلحاظ مضمونِ حدیث۔
۶۔ ایسی احادیث بھی ہیں جو بہ مصلحت امام نے اپنے شیعوں سے بیان کی ہیں یعنی ان کی عملی صورت اگرچہ مسلک و معتقدات کے خلاف ہے مگر امام نے اس لیے تعلیم کی کہ ان کے پیرو، دشمنوں کے ضرر سے محفوظ رہیں اور ایسا نہ ہو کہ مخالفین شیعوں کو اپنے عقیدے کے خلاف عمل کرتے دیکھ کر ان کو قتل کردیں اور امام کو بھی مصائب کا سامنا کرنا پڑے۔
۷۔ بعض احادیث ایسی ہیں کہ امام نے بصورت تقیہ کسی کو ایک مسئلہ کا جواب لکھا ہے اور خطرہ ٹل جانے کے بعد دوسرا جواب لکھ بھیجا ہے۔
۸۔ بعض اوقات مجلسِ امام میں حکومت کے جاسوس بھی آجاتے تھے ان کی وجہ سے سائل کو بالاجمال جواب دیا جاتا تھا۔
۹۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ از راہ تقیہ امام نے مخالفوں کی نماز جماعت میں شرکت کی اجازت دی ہے۔
۱۰۔ ایسی احادیث بھی ہیں کہ دشمنوں کے خوف سے امام نے سائل کو ہدایت کی ہے کہ ان کے جواب کو نشر نہ کرے۔
۱۱۔ ضعیف روایات کا زیادہ ہونا یہ بتاتا ہے کہ ناقلانِ حدیث یا تو امام کے ارشاد کو بالکل محفوظ نہیں رکھ سکے یا راویوں کا سلسلہ نقل در نقل ہوتے ہوتے غائب ہوگیا ہے، صاحب کافی نے بغیر تنقید و تحقیق اس کو درج کردیا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے اِس زمانے کے شیعہ جو بحمد اللہ امن و امان سے زندگی بس کررہے ہیں اپنے آئمہؑ کی مشکلات کا اندازہ نہیں کرسکتے بڑے سخت دور سے گزرے ہیں اُن زمانوں میں نقل احادیث کا طریقہ یہ تھا کہ جو لوگ حضرات آئمہؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے سوالات کے جوابات حاصل کرتے تھے ان کو کچھ لوگ تو حفظ کرلیتے تھے اور اکثر لکھ لیتے تھے
کتاب الکافی شیعوں کی معروف و معتبر ترین حدیثی کتاب اور علامہ ثقۃ الاسلام کلینی کی جاودان تالیف ہے یہ کتاب تین جداگانہ حصوں پر مشتمل ہے:1۔ اصول 2۔ فروع 3۔ روضہ جلیل القدر مؤلف نے کتاب کے پہلے حصہ میں آٹھ عناوین (فصلوں) کے تحت شیعوں کے اصول و اعتقادات کی تشریح اوران کے اعتقادی مسائل سے مربوط مطالب کا تذکرہ کیا ہے۔
مؤلف نے ہر عنوان کو مختلف ابواب میں تقسیم کیا ہے اور ہر باب میں متعدد روایات نقل کی ہیں ان میں سے بعض عناوین دو سو سے زیادہ ابواب پر مشتمل ہیں البتہ ہر باب میں ذکر شدہ روایات کی تعداد متفاوت ہے کبھی تو ایک باب میں صرف ایک ہی روایت ہے جب کہ بعض ابواب میں دسیوں روایات ذکر ہوئی ہیں ۔
فروع کافی کے بعض عناوین فقہی کتابوں میں مستقل طور پر لائےجاتے ہیں جبکہ اجارہ، بیع، رھن، عاریہ، ودیعہ وغیرہ کافی کے عنوان المعیشۃ میں، اور امر بالمعروف عنوان الجھاد میں، نیز زیارات عنوان الحج میں ذکر ہوئے ہیں ۔
فروع کافی، کتاب کافی کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ الکافی کا تیسرا حصہ " روضۃ الکافی " کے نام سے معروف ہے جس میں مختلف موضوعات سے متعلق روایات بغیر کسی خاص نظم و ترتیب کے ذکر کی گئی ہیں۔
اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لئے ہم پہلے اس میدان کے شہسواروں اور حدیث کے بزرگوں کے کلمات کا تذکرہ کریں گے اس کے بعد اس کتاب کے بعض خصوصیات کو بیان کریں گے۔
شیخ مفید: جناب کلینی کے ہم عصر شمار ہوتے ہیں کافی کے بارے میں لکھتے ہیں: کتاب کافی شیعوں کی برترین اور پر فائدہ ترین کتاب ہے۔
شہید اول: شہید محمد بن مکی ، ابن خازن کو لکہے گئے اپنے اجازہ میں شیعوں کی حدیثی کتابوں کو شمار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: کتاب کافی کے مانند شیعوں میں حدیث کی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی ہے۔
شہید ثانی: شیخ ابراہیم میسی کے نام اپنے اجازہ میں کتاب کافی کو بقیہ تین کتابوں الفقیہ، التھذیب، الاستبصار کے ہمراہ اسلام و ایمان کا ستون شمار کرتے ہیں ۔
مجلسی اول: کا بھی دعویٰ ہے کہ مسلمانوں میں کتاب کافی کے مانند کوئی کتاب نہیں لکھی گئی ہے۔
مجلسی ثانی: اپنی کتاب مرآۃ العقول یعنی کتاب کافی کی مفصل شرح میں لکھتے ہیں: کتاب کافی تمام کتب اصول و جوامع سے جامع تر اور مضبوط کتاب ہے اور فرقۂ ناجیہ شیعہ امامیہ کی بزرگترین و بھترین کتاب ہے۔
علامۂ مامقانی: کا کہنا ہے کہ کافی کے مانند اسلام میں کوئی کتاب نہیں لکھی گئی ہے کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب امام زمان علیہ السلام کے سامنے پیش کی گئی امام نے اسے پسند کیا اور فرمایا: یہ کتاب ہمارے شیعوں کے لئے کافی ہے۔
آقابزرگ تہرانی: عظیم ترین ماہر کتابیات آقا بزرگ تہرانی کا کہناہے کہ کتاب کافی کتب اربعہ میں برترین کتاب ہے اور اس کے مانند روایات اہلبیتؑ پر مشتمل کوئی کتاب نہیں لکھی گئی ہے۔
خصوصی امتیازات
1 ۔ اس کتاب کے مؤلف نے امام حسن عسکری علیہ السلام کا زمانہ اور امام زمانہ علیہ السلام کے چار نائبین کا زمان درک کیا ہے ۔
2 ۔ مؤلفین اصول کے زمانہ سےنزدیک ہونے کے باعث مؤلف نے بھت کم واسطوں سے روایات نقل کی ہیں یہی وجہ ہے کہ کافی کی بہت سی روایات فقط تین واسطوں سے نقل ہوئی ہیں ۔ (دیکھئے کتاب ثلاثیات الکلینی و قرب الاسناد تالیف امین ترمس العاملی)
3 ۔ کتاب کے عناوین بڑے مختصراور واضح ہیں جو ہر باب کی روایات کا پتہ دیتے ہیں ۔
4 ۔ روایات بغیر کسی دخل و تصرف کے نقل ہوئی ہیں اور مصنف کے بیانات احادیث سے مخلوط نہیں ہیں ۔
5 ۔ مصنف کی کوشش رہی ہے کہ صحیح اور واضح احادیث کو باب کے آغاز میں اور اس کے بعد مبھم و مجمل احادیث کو ذکر کریں ۔ (اصول کافی ج1 ص10 مقدمہ مترجم سید جواد مصطفوی)
6 ۔ حدیث کی پوری سند ذکر ہوئی ہے اسی لئے یہ کتاب تہذیب الاسلام، الاستبصار اور من لا یحضرہ الفقیہ سے متفاوت ہے ۔
7 ۔ مؤلف نے انہیں راوایات کو ذکر کیا ہے جو باب کے عنوان سے سازگار ہیں اور متضاد احادیث کے نقل سے پرہیز کیا ہے ۔
8 ۔ روایات کو ان کے باب کے علاوہ جگہوں پر ذکر نہیں کیا ہے ۔
9 ۔ کتاب کے ابواب کو بڑے دقیق اور منطقی انداز سے تنظیم کیا ہے: عقل و جھل پھر علم اس کے بعد توحید کو شروع کرتے ہیں در حقیقت معرفت شناسی کے بعض مباحث کو پہلے مرحلے میں قرار دیا ہے پھر اس کے بعد توحید و امامت تک پہنچتے ہیں اس کے بعد اخلاقی روایات کو نقل کرکے فروع اور احکام تک پہنچتے ہیں اور آخر میں مختلف قسم کی روایات کو کشکول کے مانند جمع کیا ہے ۔
10 ۔ کافی کے عقیدتی، اخلاقی اور فقہی مباحث کی جامعیت ایک اور قابل ذ کر خصوصیت ہے۔
یہ تیسری جلد کتاب الزکوٰة، الخمس، الصوم،اعتکاف پر مشتمل ہے۔