من لایحضرہ الفقیہ ج۱

من لایحضرہ الفقیہ ج۱

من لایحضرہ الفقیہ ج۱

Publish number :

2

Publication year :

1996

Publish location :

کراچی ۔ پاکستان

Number of volumes :

4

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

من لایحضرہ الفقیہ ج۱

کتاب من لا یحضرہ الفقیہ مکتب تشیع میں احادیث کی ایک بنیادی کتاب جانی جاتی ہے اور اسے کتب اربعہ میں سے شمار کیا جاتا ہے۔ کسی شخص کی فقیہ تک رسائی نہ ہونے کی صورت میں پیش آنے والے شرعی مسائل کی جواب دہی کیلئے شیخ صدوق نے صحیح اور موثق احادیث کی بنیاد پر اس کتاب کو تالیف کیا۔

من لا یحضر الفقیہ شیخ صدوق کی اہم ترین تالیفات میں سے شمار ہوتی ہے۔ کتاب کی تالیف میں ابتدائی صدیوں کے شیعہ فقہا کی روش کی مانند صرف آئمہ طاہرین کی روایات کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں کافی کے برعکس صرف فقہی احکام سے متعلق 6000 ہزار احادیث اکٹھی کی گئی ہیں۔ یہ کتاب شروع سے ہی شیعہ فقہا کی نظر میں بہت اہمیت کی حامل رہی ہے اور اس پر کئی شروحات لکھی گئیں جن میں مجلسی اول کی روضۃ المتقین معروف ترین شرح سمجھی جاتی ہے۔

شیخ صدوق نے اس کتاب میں حریز بن عبداللہ سجستانی، شیخ اجل حلبی، علی بن مہزیار اہوازی، احمد بن محمد بن عیسی، ابن ابی عمیر، برقی و حسین بن سعید اہوازی کی کتابوں سے احادیث کا استخراج اور جمع آوری کی ہے۔

سیّد بحر العلوم نے اس کتاب کے بارے میں تحریر کیا ہے:

“ان کی یہ کتاب دنیا میں ایسی شہرت کی حامل ہے، جیسے سورج نصف النہار میں چمکتا ہے۔”

محدث نوری نے کہا ہے:

“بہت سے علماء نے من لا یحضرہ الفقیہ کی احادیث کو دیگر تین کتب احادیث پر اس لیے ترجیح دی ہے کہ شیخ صدوق علیہ الرحمہ اکثر احادیث کے حافظ تھے، انھوں نے اِنہیں اچھی طرح منضبط کیا اور ہر روایت کی جانچ پڑتال کی ہے، انھوں نے کافی کے بعد اپنی کتاب تحریر کی ہے اور تحریر کردہ احادیث کی صحت کی ضمانت لی ہے، انھوں نے د یگر مصنّفین کی طرح صرف احادیث و روایات کو جمع کرنے کا قصد نہیں کیا بلکہ ان ہی احادیث کو رقم کیا ہے جن سے فتویٰ صادر کیا اور اُن کی صحت کا حکم لگایا اور اس اعتقاد کے ساتھ جمع کیا کہ یہ احادیث ان کے اور رب کے مابین حجّت ہیں۔”

شیخ صدوق نے اپنی کتاب من لا یحضرہ الفقیہ کو چار جلدوں میں مرتّب کیا ہے:

۱۔ پہلی جلد کا آغاز باب المیاہ و طھرھا و نجاستھا سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام باب نوادر الصلوات پر ہوتا ہے۔ یہ کتاب الطّھارۃ اور کتاب الصّلٰوۃ ہے۔ اس جلد میں احادیث کی تعداد ۱۵۷۳ ہے اور ۳۴ ابواب ہیں۔

۲۔ دوسری جلد کا آغاز ابواب الزّکاۃ سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام باب الفروض علی الجوارح پر ہوتا ہے۔ اس جلد میں کتاب الزکاۃ، کتاب الخمس، کتاب الصّوم اور کتاب الحجّ ہے۔ اس جلد میں حدیث۱۵۷۴ سے لے کر حدیث ۳۲۱۵ تک ہے۔

۳۔ تیسری جلد کا آغاز ابواب القضایا والاحکام سے ہوتا ہے اور اختتام باب معرفۃ الکبائر پر ہوتا ہے۔ اس جلد میں کتاب القضایا و الاحکام اور کتاب المعیشۃ، کتاب النکاح اور کتاب الطلاق ہے۔ اس جلد میں احادیث کا آغاز حدیث ۳۲۱۶ سے لے کر حدیث ۴۹۶۷ تک ہے۔

۴۔ چوتھی جلد کا آغاز باب ذکر جمل من مناھی النّبیّ سے ہوتا ہے۔

اور اس جلد میں کتاب الحدود اور کتاب الدّیات اور کتاب الوصیّۃ اور کتاب الوقف اور کتاب الفرائض و المواریث اور آخر میں باب النّوادر ہے۔ اس جلد میں حدیث کا آغاز ۴۹۶۸ سے لے کر حدیث ۵۹۲۰ تک ہے اور اسی کتاب کے آخر میں مشیخۃ کے عنوان سے ۴۲۲ سے ۵۳۹ تک ان راویوں کا تذکرہ ہے جن سے شیخ صدوق نے روایات اخذ کی ہیں۔

محدث بحرانی نے ہر جلد کی احادیث کو شمار کیا تو ان کے نزدیک احادیث کی تعداد ۵۹۶۳ ہوئی جب کہ ۴۴۶ ابواب قائم کیے ہیں۔

۳۹۱۳ احادیث مسند ہیں اور ۲۰۵۰ احادیث مرسل ہیں۔ اس کتاب کے قلمی نسخے بہت ہیں اس کا ایک نسخہ جو ۶۸۱ھ کا تحریر شدہ ہے، مانچسٹر کی لائبریری میں موجود ہے۔ یہ کتاب بار بار چھپی ہے۔

لکھنؤ ہندوستان میں ۱۳۰۰ ھ میں

تبریز ایران میں ۱۳۳۲ ھ میں

طہران ایران میں ۱۳۷۲ ھ میں

نجف اشرف عراق میں ۱۳۷۷ ھ میں

اس کتاب کا اُردو ترجمہ سیّد حسن امداد صاحب ممتاز الافاضل غازی پوری نے کیا ہے جو ۴؍ جلدوں میں شائع ہوا ہے۔

شیخ صدوق کے مشائخ

مرزا حسین نوری نے مستدرک الوسائل میں ۲۱۱؍ افراد کے نام تحریر کیے ہیں جو شیخ صدوق کے مشائخ تھے جن میں سے چار افراد نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔

۱۔ شیخ صدوق کے والد علی بن حسین بابویہ قمی

۲۔ محمد بن حسن بن احمد بن الولید

۳۔ محمد بن علی بن ماجیلویہ

۴۔ محمد بن موسیٰ بن متوکّل

جب ہم مشیخہ من لایحضرہ الفقیہ پر نظر کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ شیخ صدوق نے اس وجیزہ میں ۲۰۶؍ مرتبہ اپنے والد کے طریق سے اور ۱۱۷؍ مرتبہ اپنے اُستاد ابن الولید کے طریق سے اور ۴۸؍ مرتبہ اپنے دوسرے اُستاد محمد بن علی بن ماجیلویہ کے طریق سے اور آخر ۳۶؍ مرتبہ محمد بن موسیٰ بن متوکّل کی سند سے خود کو صاحبانِ کتب اور اُصول اوّلیّہ تک ذکر کرتے ہیں۔

شاگردانِ شیخ صدوق

نجاشی کے مطابق جب شیخ صدوق ۳۵۵ ھ میں بغداد تشریف لائے تو بہت سے مشائخ شیعہ نے ان سے احادیث اخذ کیں، حال آں کہ وہ اس وقت نوجوان تھے۔ جب ہم اس عہد پر نظر کرتے ہیں تو مرجعیتِ عامہ شیخ صدوق پر منتہی ہوتی ہے۔ شیعیانِ جہان، دُنیا کے اطراف و اکناف سے سوالات اور دینی معاملات کے بارے میں شیخ صدوق سے رجوع کرتے تھے۔ مقدمہ معانی الاخبار کی تحقیق کے مطابق ۲۷؍ افراد سے زیادہ ان کے شاگردوں کے بارے میں علم نہیں ہوسکا ہے، جن میں اہم ترین یہ اشخاص ہیں۔

۱۔ ابوالعباس احمد بن علی بن محمد بن العباس بن نوح

۲۔ ابوعبداللہ حسین بن عبداللہ غضائری

۳۔ ابوعبداللہ حسین بن علی بن الحسین بن بابویہ (شیخ صدوق کے بھائی)

۴۔ علی بن احمد بن العباس النجاشی (نجاشی، کتاب الرجال کے والد گرامی)

۵۔ السیّد مرتضیٰ علم الہدیٰ

۶۔ ابوعبداللہ محمد بن محمد بن النعمان شیخ مفید

۷۔ ابو محمد ہارون بن موسیٰ التلعکبری

۸۔ شریف ابوعبداللہ محمد بن الحسن معروف بہ نُعمہ (جن کی فرمائش پر یہ کتاب معرضِ وجود میں آئی)

۹۔ حسن بن حسین بن علی بن بابویہ

۱۰۔ ابوالحسن جعفر بن الحسن بن حسکہ القمی

شیخ صدوق نے جو کتابیں اُس وقت تک تحریر کی تھیں اور ان کی دسترس میں تھیں ان سے استفادہ کیا ہے۔ ان میں سے کتاب کلینی الرازی الکافی بھی تھی جو شیخ صدوق سے کچھ عرصہ قبل تالیف کی گئی تھی وہ باب “الوصی لمنعِ الوارث” میں حدیث لکھنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں، حدیث ۵۵۲۶ کے ذیل میں:

مَا وَجَدتُّ ہٰذَا الْحَدِیْثَ اِلَّا فِیْ کِتَابِ مُحَمَّدِ بْنِ یَعْقُوْبَ وَ مَا رَوَیْتُہٗ اِلَّا مِنْ طَرِیْقِہٖ حَدَّثَنِیْ بِہٖ غَیْرُ وَاحِدٍ مِّنْھُمْ مُحَمَّدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِصَامٍ الْكُلَيْنِيُّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَعْقُوبَ۔

“میں نے اس حدیث کو محمد بن یعقوب (کلینی رازی) کی کتاب میں پایا ہے اور صرف انھی کے طریق سے روایت کی ہے۔”

نیز باب نوادر الوصایا میں حدیث ۵۵۴۸ من لایحضرہ الفقیہ، جلد۴، ص۲۲۳ میں فرماتے ہیں:

“رَوٰى مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْكُلَيْنِيُّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَمَاعَةَ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَبَلَةَ وَ غَيْرِهِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللهِ ع قَالَ أَعْتَقَ أَبُو جَعْفَرٍؑ مِنْ غِلْمَانِهِ عِنْدَ مَوْتِهِ شِرَارَهُمْ وَ أَمْسَكَ خِيَارَهُم۔” [1]

شیخ صدوق کی کرامت

جیسا کہ کتاب روضات الجنات فی احوال العلماء والسادات تالیف محمد باقر خواسناری کی کتاب جلد۶ میں صفحہ ۵۷۴ پر ہے کہ جسد پاک و مطہر شیخ صدوق ۱۲۳۸ ھ یعنی ان کی وفات کے ۸۵۷ سال بعد ایک سیلاب کے اثر سے ظاہر ہوا اور تہران اور رے کے ہزاروں علما اور اکابرین نے ان کے تر و تازہ جسد کا مشاہدہ کیا، داڑھی، تلووں اور ناخنوں میں مہندی کے آثار باقی تھے۔

کتاب نقباء البشر جلد۴، ص۱۴۷۲ میں ہے کہ ملّا علی کنی مرجع تقلید اور اپنے زمانے کی ممتاز شخصیت، ولادت ۱۲۲۰ ھ اور وفات ۱۳۰۶ ھ میں ہوئی، اس وقت ۱۸؍ سال کے تھے اور انھوں نے شیخ کے تر و تازہ جسم کا مشاہدہ کیا تھا۔